خوبصورت اور دیدہ زیب ہاتھ سے بنے کمالیہ کے قالین نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک بھی اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔
چند دہائیاں قبل تک کمالیہ میں قالین بافی کے ایک سو کے قریب کارخانے اور اڑھائی ہزار کے قریب گھریلو صنعتیں قائم تھیں۔لیکن اب ان کی جگہ جدید مشینوں نے لے لی ہے جس کی وجہ سے یہ صنعت اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
واضح رہے کہ دو دہائیاں قبل تک کمالیہ کے دستی قالین بنانے کی صنعت نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی ایک خاص پہچان رکھتی تھی لیکن اب اس علاقے میں صرف آٹھ سو کے قریب ہی گھریلو صنعتیں بچی ہیں۔
قالین بافی کی صنعت سے وابستہ چالیس سالہ ملک ساجد اقبال نے سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے باپ دادا بھی اسی کام سے وابستہ تھے اس لیے انہوں نے بھی اسی پیشے کو اپنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ 1975ء سے 1995ء تک قالین بافی میں استعمال ہونے والی کھڈیاں نہ صرف گھریلو انڈسٹری بلکہ باقاعدہ کارخانوں کی صورت اختیار کر گئی تھیں۔
'کمالیہ میں قالین بافی کے ایک سو کے قریب کارخانے اور 25 سو کے قریب گھریلو صنعتیں قائم تھیں جن میں تقریباً چالیس ہزار کھڈیاں موجود تھیں۔'
ان کے مطابق حکومتی سطح پر چھوٹے کارخانوں اور گھریلو صنعتوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے دستکاری صنعتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

ہاتھ سے بنا ایک قالین دس سے بارہ دن میں تیار ہو جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی قالینوں کی پوری دنیا میں مانگ ہے لیکن مناسب معاشی اصطلاحات اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ صنعت بحران کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
قالین بافی سے وابستہ محلہ خالد کالونی کے رہائشی محمد شاہد انصاری نے بتایا کہ 1991ء سے 1995ء تک یہ صنعت معاشی طور پر مختلف حالات کا سامنا کرتی رہی جس میں مشینی دور کی تبدیلیاں بھی شامل تھیں۔لیکن 90ء کی دہائی میں قالین بافی کی صنعت زوال کا شکار ہو گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے شروع میں تین کارخانے قائم تھے لیکن صنعت کی زوال پزیری کے باعث اب صرف ایک کارخانہ ہی چل رہا ہے۔
'ہمارے تیار کیے گئے قالین نہ صرف لاہور، کراچی، پشاور بلکہ ہالینڈ، انگلینڈ، جرمنی اور فرانس بھی ایکسپورٹ ہوتے تھے تاہم مشینی دور آ جانے سے مشین آپریٹر اور انجینئرز کی ضرورت محسوس ہوئی اور دستی کاریگروں کا کام ختم ہو گیا۔'
ان کے مطابق افغان قالین کی وجہ سے بھی یہاں کی مقامی صنعت متاثر ہوئی ہے کیونکہ وہ یہاں کی نسبت قیمت میں کم ہوتے ہیں۔
'مقامی صنعتوں میں قالین بنانے کے لیے ایک مربع فٹ میں اڑھائی سو سے تین سو پھندے (قالین بنانے کے لیے دھاگے کے جوڑ) لگتے ہیں جبکہ افغانی قالین میں صرف سولہ پھندے لگائے جاتے ہیں جس سے افغان قالین کی لاگت کم ہو جاتی ہے۔'
ملک محمد بوٹا پینتیس سال تک اِس صنعت سے وابستہ رہے تاہم وہ گزشتہ دس سال سے اس کام کو خیر آباد کہہ چکے ہیں اور اب ایک گارمنٹس فیکٹری چلا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومتی سطح پر چھوٹے کارخانوں اور گھریلو صنعتوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے یہ صنعتیں ختم ہو گئی ہیں۔
'جدید ٹیکنالوجی آ جانے کی وجہ سے اس منافع بخش گھریلو صنعت پر حکومت کی جانب سے توجہ نہیں دی گئی جس کا نقصان اس پیشے سے منسلک افراد کو اٹھانا پڑا۔'
محمد تنویر کمالیہ کے نواحی گاؤں موضع دھولر شریف کے رہائشی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ 1993ء میں دستی قالین بنانے کی صنعت میں بطور کاریگر کام کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ایک قالین دس سے بارہ دن میں تیار کرتے تھے جس کی مزدوری انہیں اٹھارہ ہزار روپے ملتی تھی اور وہ قالین چالیس سے پچاس ہزار روپے میں فروخت ہوتا تھا۔
تنویر نے مزید بتایا کہ صنعت کے زوال سے کارخانہ بند ہو گیا اور انہیں یہ کام چھوڑنا پڑا یہی وجہ ہے کہ اب وہ گزشتہ دس سال سے سبزی کا ٹھیلہ لگا کر گزر اوقات کر رہے ہیں۔
خوبصورت اور دیدہ زیب ہاتھ سے بنے کمالیہ کے قالین نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک بھی اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔
Reviewed by Shama naaz
on
04:58
Rating:

No comments