بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکے ہیں اور پاکستان بھی اس سنگین مسئلے سے دو چار ہے دنیا میں سالانہ 246 ملین یعنی 24 کروڑ 60 لاکھ لڑکے اور لڑکیاں سکول میں ہونے والے جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں۔
سال 2008 میں واقعات کی شرح 6.2 فیصد تھی جبکہ 2018 میں یہ تعداد 16.2 فیصد ہو گئی۔ ان واقعات میں نشانہ بننے والے افراد اور ان کے خاندان کی زندگیوں پر عمر بھر کے لیے منفی اثرات چھوڑ جاتے ہیں جو کہ مجموعی طور پر پوری قوم کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے قصور میں بچوں کے حقوق کی اس خلاف ورزی کا ادراک کرتے ہوئے وفاقی محتسب کے تحت کام کرنے والے قومی کمیشن برائے اطفال نے اس تحقیق کا آغاز کیا جس کا مقصد مسائل کی نشاندہی کرنا اور ان کا حل تجویز کرنا تھا تاکہ ایک خاص نظام ترتیب دیا جائے جو کہ جنسی زیادتی کا شکار بچوں کی بحالی اور معاشرے میں ان کی شمولیت میں مددگار ثابت ہو اس تحقیق میں مختلف زاویوں کو مدنظر رکھا گیا اور بہت سے ذرائع اور شعبوں کو شامل کیا گیا۔ اس تحقیق میں پنجاب پولیس کا 10 سال (2008 تا 2018) کا ریکارڈ، ضلع قصور کا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالتوں اور قصور میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی مدد لی گئی۔
بنیادی معلومات 83 متعلقہ لوگوں کے بیانات سے لی گئی جن میں 41 فیصد انٹرویوز متاثرہ بچوں کے والدین سے، 34 فیصد ملزمان، 11 متاثرہ بچوں اور 14 فیصد انٹرویوز دیگر افراد شامل ہے۔جن سے معلوم ہوا کہ 92 فیصد مجرم پڑھے لکھےجن میں 45 فیصد باقاعدہ تعلیم یافتہ تھے جبکہ مظلومین میں 70.59 فیصد کے رشتہ دار غیر تعلیم یافتہ تھے۔
صوبہ پنجاب میں کم عمر بچیوں کی عصمت دری کے جو واقعات رپورٹ ہوئے ان میں لاہور میں 19.35 فیصد قصور اور ملتان میں 6.45 فیصد گوجرانوالہ، نارووال، راولپنڈی میں 5.37 اور رحیم یار خان، سیالکوٹ میں 4.30 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے۔
قومی کمیشن برائے اطفال کی 109 صفحوں پر مشتمل رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 14 سال تک کے عمر کے بچوں کی تعداد کل آبادی کا 35.4 فیصد ہے2017 میں شائع ہو نے والی ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق چار ہزار 139 بچے مختلف درجے کے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ جس کے مطابق پنجاب میں سب سے زیادہ تعداد ایک ہزار 89 سندھ میں 490 بلوچستان میں 76 اسلام آباد خیبر پختونخواہ میں 42 اور آزاد کشمیر 9 کیسز رپورٹ ہوئے۔
سہ ماہی سرکاری اعداد و شمار یکم جنوری 2018 تا 31 مارچ 2018 سے ظاہر ہوتا ہے کہ دس سال سے کم عمر بچوں پر 304 مرتبہ جنسی حملے کیے گئے جن میں 67 فیصد بچوں پر اور 31 فیصد چھوٹی بچیوں پر ہوئے۔
ریکارڈ سے مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عصمت دری کا شکار ہونے والے بچوں میں اموات کا تناسب 4.1 فیصد رہا۔
صوبہ پنجاب میں کم عمر بچیوں کی عصمت دری کے جو واقعات رپورٹ ہوئے ان میں لاہور میں 19.35 فیصد قصور اور ملتان میں 6.45 فیصد گوجرانوالہ، نارووال، راولپنڈی میں 5.37 اور رحیم یار خان، سیالکوٹ میں 4.30 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کم بچوں کے ساتھ لواطت کے واقعات میں لاہور سب سے زیادہ 12.80 فیصد گوجراوالہ میں 7.38 فیصد فیصل آباد و 6.89 فیصد مظفر گڑھ راولپنڈی اور قصور میں بلترتیب 5.41 فیصد 4.9 اور 4.4 فیصد واقعات کا اندراج کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دیگر اضلاع کے مقابلے میں لاہور کے کیسز کی زیادہ مقدار اس بنا پر بھی ہو سکتی ہے کہ ملک کا دوسرا گنجان آباد اور دنیا کا 32واں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔
رپورٹ کے مطابق قصور میں جنسی درندگی کے حوالہ سے متعدد حقائق کشا تحقیقات سامنے آئیں حسین خواجہ کا ویڈیو سکینڈل جس میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد، بلیک میلنگ اور پورنوگرافی ویڈیوز کے ذریعہ بچوں کا استحصال جو کہ 2015 میں منظر عام پر آیا ان جرائم کی تحقیقات اور رپورٹ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے کی۔
قصور کی عدالت کے ریکارڈ کے مطابق 10 سال میں 128 مقدمات لائے گئے جس میں صرف 24.21 فیصد کا ہی فیصلہ ہو سکا اس طرح ڈی پی او قصور کی تحقیقاتی رپورٹ بابت جنسی استحصال 2015 تا 2018 بھی منظر عام پر آئی علاوہ ازیں انسانی حقوق کی قومی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ کا ایک سلسلہ بھی موجود ہے۔
اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے وفاقی محتسب کے تحت کام کرنے والے ادارے قومی کمیشن برائے اطفال کو یونیسف کے شانہ بشانہ ریسرچ سٹڈی کرنا ہو گی قومی کمیشن برائے اطفال کے تحت کی جانیوالی اس تحقیق میں حالیہ ہونے والی قانونی اصلاحات کا بھی جائزہ لیا گیا جس میں زنا، غیر فطری عمل، بچوں سے جنسی زیادتی اور زیادتی کے شکار بچوں کی شناخت ظاہر کرنے کو جرم قرار دیا گیا۔
سائبر قوانین میں چائلڈ پورنوگرافی یعنی بدفعلی کی فلموں اور سائبر اسٹاکنگ لوگوں پر بری نظر کو پہلی دفعہ پا کستان میں جرم قرار دیا گیا۔
ان قوانین میں زیادتی کا شکار بچوں کو مفت قانونی نمائندگی کا حق دیا گیا اور طبی معائنے، ڈی این اے جیسی سہولت مفت دی گئی۔
قومی کمیشن برائے اطفال نے جو سفارشات مرتب کی اس میں کہا گیا ہے کہ زیادتی کا شکار لوگوں کی معاونت کے لیے خصوصی سنٹرز قائم کیے جائیں اور مجرمان کا ڈی این اے ریکارڈ رکھا جائے۔
ان قوانین کے ذریعے بچوں کی خصوصی عدالت کو بھی احکامات ہیں کہ ایک مہینے میں کیس کا فیصلہ سنائے۔ مگر اس ملک کی بدقسمتی کے یہاں قوانین تو بن چکے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کا مسئلہ ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق 272 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 27.2 فیصد میں فیصلہ ہوا 27.2 فیصد میں ملزمان کو بری کر دیا گیا 2.6 فیصد میں جرم ثابت ہوا جبکہ 5.5 فیصد مقدمات کو خارج کر دیا گیا۔
قصور کی عدالت کے ریکارڈ کے مطابق 10 سال میں 128 مقدمات لائے گئے جس میں صرف 24.21 فیصد کا ہی فیصلہ ہو سکا۔ مقدمات کی ایک بڑی تعداد یعنی 75.78 فیصد کیسسز عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ گواہان کی مقدمات میں غیر حاضری ہے۔
بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکے ہیں اور پاکستان بھی اس سنگین مسئلے سے دو چار ہے دنیا میں سالانہ 246 ملین یعنی 24 کروڑ 60 لاکھ لڑکے اور لڑکیاں سکول میں ہونے والے جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں۔
Reviewed by Shama naaz
on
19:23
Rating:

No comments