پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کے لیے پی ای سی اے کے تحت آن لائن غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق شکایات پر کارروائی کے لیے سی وی ڈی کا شعبہ قائم کردیا


ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے شکایات کے اندراج اور ان کو خارج کرنے کے لیے پی ٹی اے نے ضابطہ اخلاق ایس او پی بھی جاری کردیا

ٹیلی کام آپریٹر اور پی ٹی اے خود تمام غیر محفوظ ویب سائٹس کی نگرانی کررہے ہیں، اس کے علاوہ ان کی جانب سے غیرقانونی مواد جو محفوظ ویب سائٹس پر موجود ہوگا اس کے لیے علیحدہ طریقہ کار اختیار کیا جائے گامعروف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر محفوظ ویب سائٹس کی مثال ہیں، جنہیں بیرون ملک سے چلایا جارہا ہے پی ٹی اے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سی وی ڈی کے معیار پر پورا نہ اترنے والے مواد کو مذکورہ پلیٹ فارمز سے ہٹانے کے لیے حکام رابطے میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تاریخی اور بنیادی طور پر پی ٹی اے پاکستان ٹیلی کام ایکٹ 1996 کے تحت اختیارات کا استعمال اور کام کررہی ہے تاہم انٹرنیٹ میں ترقی اور اس کی وسعت میں اضافے کی وجہ سے اتھارٹی کو قانون کے تحت غیر اخلاقی سرگرمیوں کو بلاک یا ہٹانے کا ذمہ دار تصور کیا جاتا تھا، تاہم اب پی ای سی اے 2016 کے تحت پی ٹی اے کو مذکورہ اختیارات بھی سونپ دیئے گئے ہیں


غیر اخلاقی مواد کے حوالے سے پی ٹی اے کو ریاست مخالف، عدلیہ مخالف اور توہین مذہب کی شکایات شامل ہوتی ہیں، اس حوالے سے پی ٹی اے کی جانب سے 8 لاکھ 24 ہزار 8 سو 78 یو آر ایل کو پہلے ہی بلاک کیا جاچکا ہے یہ تمام یو آر ایل، پی ای سی اے کے قانون کے تحت پی ٹی اے کے دائر کار میں آتے ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کے لیے پی ای سی اے کے تحت آن لائن غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق شکایات پر کارروائی کے لیے سی وی ڈی کا شعبہ قائم کردیا پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کے لیے پی ای سی اے کے تحت آن لائن غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق شکایات پر کارروائی کے لیے سی وی ڈی کا شعبہ قائم کردیا Reviewed by Shama naaz on 03:02 Rating: 5

No comments

Recent Posts

Fashion

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →